تقوائے الٰہی تمام خوبیوں کا منبع ہے | خلفائے وقت کو حضرت فاطمہ زھراء کا اختلاف کی بیج بونے پر انتباہ
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئےکہا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے انسان کا معبود فقط اللہ تعالیٰ ہونا چاہیے۔ فقط ظاہری عبادات میں ہی اللہ کو معبود نہ سمجھا جائے، بلکہ زندگی کے تمام حالات و امور بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ خواہشات کی پیروی کرنیوالے انسان کا درحقیقت معبود خواہشات ہی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ انسان کو اپنی خلقت اور انجام پر غور کرنا چاہیے۔ علم کے نتیجہ میں تقوی الٰہی حاصل ہوتا ہے جو تمام خوبیوں کا منبع ہے۔
علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی تاکید کی کہ انسان کو ہر وقت اپنی پیدائش اور انجام کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو خالی ہاتھ دنیا میں آتا ہے اور مرنے کے بعد بھی خالی ہاتھ جاتا ہے۔ کفن اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں۔ انسان کے فقط نیک اعمال ہیں جو قبر اور بعد کے مراحل میں اس کے کام آئیں گے۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ قرآن مجید میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور وہ بھی کسی اعلیٰ و عمدہ قسم کی مٹی سے نہیں بلکہ سیاہ، سڑی ہوئی، بدبودار مٹی سے خلق کیا گیا ہے۔ اس سے انسان اپنی اصلیت کی طرف توجہ کرتا رہے، حضرت علی ؑ کا مشہور فرمان ہے” انسان کا آغاز نطفہ سے ہے اور انجام مردار کی طرح ہوتا ہے۔“ نطفہ سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور انسان جب مر جاتا ہے تو اسے مس کرنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور انسان کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اگر اس کے حلق میں پانی کا گھونٹ بھی اٹک جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تلخ حقائق انسان کی اصلیت، حقیقت اور انجام کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ اس کے باوجود انسان کو مکرم و محترم قرار دیا گیا۔ اِسے بہترین طریقے سے خلق کیا گیا اور جسم کو خوبصورت بنایا گیا۔سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ کو فرشتوں نے سجدہ کیا جوکہ حضرت آدم ؑ کا احترام بھی تھا اور انسانیت کا احترام بھی ہے۔ مگر ابلیس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ نہ کیا جس کی وجہ سے بارگاہ ِ خداوندی سے دھتکار دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سجدہ عاجزی کی علامت ہے جبکہ تکبر بہت بڑا گناہ ہے، جس زمین کے اندر جانا ہے اس پر اکڑ کر چلنا عقلمندی نہیں۔
وفاق المدارس الشیعہ کے صدر نے کہا کہ اب بھی انسان چاہے تو فرشتوں سے بہتر بن سکتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین علی ؑ فرماتے ہیں کہ” اللہ نے فرشتوں کو عقل عطاء کی ہے خواہشات سے محروم رکھا ہے اور جانوروں کو فقط خواہشات دی ہیں ان میں عقل نہیں، جبکہ انسان میں عقل اور خواہشات دونوں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ جس نے عقل سے کام لیا اور خواہشات کی مخالفت کی وہ فرشتوں سے بہتر قرار پائے گا اور جس نے عقل کی پیروی چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کی وہ جانوروں سے بھی بد تر ہے“۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ قرار دیا اس کے بعد انہیں نبی، رسول، امام اور ولی کے مناصب بھی عطاء کیے گئے۔ خلیفہ کا رتبہ بہت بلند ہے جو ہر ایک کو نہیں مل سکتا۔ حضرت داﺅد کو بھی خلیفہ کا منصب عطا کیا گیا۔ یہ الٰہی عہدے ہیں۔ خلیفہ کی یہ شان نہیں ہوتی کہ کہے اگر میں سیدھا چلوں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے سیدھا کر دینا۔ حضرت آدم ؑ و داﺅد ؑ جیسی شخصیات کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا۔ حضرت فاطمہ الزہرا (س) نے بھی خود کو خلیفہ سمجھنے والے سے کہا تھا کہ آپ نے قیامت تک اختلاف کی بنیاد رکھ دی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ قرآن مجید میں حضرت داﺅد ؑ کے قصہ میں کافی عبرتیں ہیں۔/۹۸۸/ ن